کلّیوں کا تبسّم ہو، کہ تم ہو، کہ صَبا ہو
اِس رات کے سنّاٹے میں، کوئی تو صدا ہو
یُوں جسم مہکتا ہے ہَوائے گُلِ تر سے !
جیسے کوئی پہلوُ سے ابھی اُٹھ کے گیا ہو
دُنیا ہَمہ تن گوش ہے، آہستہ سے بولو
کچھ اور قریب آؤ ، کوئی سُن نہ رہا ہو
یہ رنگ، یہ اندازِ نوازش تو وہی ہے
شاید کہ کہیں پہلے بھی توُ مجھ سے مِلا ہو
یوں رات کو ہوتا ہے گُماں دِل کی صدا پر
جیسے کوئی دِیوار سے سر پھوڑ رہا ہو
دُنیا کو خبر کیا ہے مِرے ذوقِ نظر کی
تم میرے لیے رنگ ہو، خوشبو ہو، ضیا ہو
یُوں تیری نِگاہوں میں اثر ڈُھونڈ رہا ہُوں
جیسے کہ تجھے دِل کے دَھڑکنے کا پتا ہو
اِس درجہ محبّت میں تغافل نہیں اچھّا
ہم بھی جو کبھی تم سے گُریزاں ہوں تو کیا ہو
ہم خاک کے ذرّوں میں ہیں اختر بھی، گُہر بھی
تم بامِ فلک سے، کبھی اُترو تو پتا ہو