na ye k wo chaly to kehkishan si lagy


نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے

مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے

کوئی بھی رُت ہو اُس کی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی

وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی

نہ مدتوں جدا رہے نہ ساتھ صبح و شام ہو

نہ رشتہِ وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذنِ عام ہو

نہ ایسی خوش لباسیاں کے سادگی گلہ کرے

نہ اتنی بے تکلفی کہ آئینہ حیا کرے

نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو

نہ اس قدر کٹھور پن کے دوستی خراب ہو

کبھی تو بات بھی خفی کبھی سکوت بھی سُخن

کبھی تو کشتِ زعفران کبھی اُداسیوں کا بن

سنا ہے ایک عمر ہے معاملاتِ دل کی بھی

وصالِ جاں فزا تو کیا فراقِ جانگسل کی بھی

سو ایک روز کیا ہوا وفا پہ بحث چھڑ گئی

میں عشق کو امر کہوں وہ میری بات سے چڑ گئی

میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے

کہ عمر بھر کے ساتھ کو بدتر از ہوس کہے

شجر ہجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گِل رہیں

نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں

میں کوئی پینٹنگ نہیں کہ ایک فریم میں رہوں

وہی جو من کا میت ہو اُسی کے پریم میں رہوں

نہ اُس کو مجھ پہ مان تھا نہ مجھ کو اُس پہ زعم ہی

جب عہد ہی کوئی نہ ہو تو کیا غمِ شکستگی

سو اپنا اپنا راستہ ہنسی خوشی بدل لیا

وہ اپنی راہ چل پڑی میں اپنی راہ چل دیا

بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اُس کی دوستی

اب اُس کی یاد رات دن ، نہیں ، مگر ”کبھی کبھی



آپ کی آرا کا منتظر 

عنصر محمود ستی 

1 comments:

Anonymous said...

nice

Post a Comment

 
Copyright © Urdu Poetry